پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹر رضا ربانی نے وزیر اعظم عمران خان کی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) بل کے حوالے سے اپوزیشن پر تنقید کے جواب میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نے شاید خود بل نہیں پڑھا اگر وہ بل پڑھ لیتے تو اس بل کی حمایت نہ کرتے کیونکہ بل میں ساری قوم کو مخبر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پی پی پی رہنما نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف بل میں کاروباری افراد کو صارفین کے بارے میں معلومات نہ دینے پر سزا دینے کی تجویز دی گئی جس کے نتیجے میں مخبری کی ریاست جنم پائے گی۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ بل میں یہ کہا گیا کہ تحقیقاتی افسر بغیر عدالت کی اجازت کے گرفتار کر سکتا ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن پر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر متعدد ٹوئئٹس میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ‘آج سینیٹ میں اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو اہم بلز انسداد منی لانڈرنگ اور دارالحکومت وقف املاک کو ناکام بنایا، میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ اپوزیشن رہنماؤں کے ذاتی مفادات اور ملک کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ این آر او نہ ملنے تک حکومت کو گرانے کی دھمکی دے رہے ہیں’۔
سینیٹ کے اجلاس میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ نے ضلع اوکاڑہ کے شہر دیپالپور میں اغوا کے بعد بازیاب ہونے والی خاتون ایڈووکیٹ نسرین ارشاد کا معاملہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نسرین ایڈووکٰیٹ کے اغوا کا معاملہ انسانی حقوق کی کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ نسرین ایڈووکیٹ نے سابق صدر جنرل پروز مشرف کے خلاف وکلا تحریک میں بھرپور حصہ لیا ان کے ساتھ جو ہوا اس پر پوری ریاست کو شرم آنی چاہیے۔
عثمان کاکٹر نے کہا کہ اس واقعہ پر حکومت، سرکاری اداروں، انٹیلی جنس اداروں کو شرم آنی چاہیے، وزیر اعظم، سیاسی جماعتیں، میڈیا اس واقعے پر کہاں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ مانتا ہوں کہ جنگ اور جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ زیادتی ہوئی اور جیو نیوز والے پر روز احتجاج بھی کر رہے ہیں لیکن اس معصوم باہمت خاتون کے ساتھ جو ہوا اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔
واضح رہے کہ اوکاڑہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے ضلع اوکاڑہ کے دیپالپور شہر میں خاتون وکیل کے مبینہ اغوا کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی اعلی سطح کی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب اغوا کاروں سے بازیابی کے بعد خاتون وکیل نسرین ارشاد کی ویڈیو اور تصاویر ٹوئٹر پر وائرل ہوئیں۔
خاتون وکیل کے بیٹے کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق نسرین ارشاد کو 15 اگست کو دیپالپور کچہری کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ کام کرتی تھی۔
علاوہ ازیں عثمان کاکٹر نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار اور اس کے بعد مبینہ آڈیو ٹیب سے متعلق کہا کہ وزیر دفاع پارلیمنٹ میں آکر جواب دیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک مشہور دہشت گرد کو معاہدے کے تحت پشاور کے سیف ہاؤس میں رکھا گیا، اس پر ’مزدور‘ میڈیا اور اپوزیشن خاموش ہے۔
عثمان کاکٹر نے کہا کہ احسان اللہ احسان کی آڈیو ٹیب سب نے سنی جس میں احسان اللہ احسان نے کہا کہ مجھ سے مطالبہ تھا کہ اپ ڈیتھ سیل کے سربراہ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس تناظر میں موجودہ حکومت تو دہشت گرد دوست حکومت ہے، اب معلوم نہیں احسان اللہ احسان کیا کیا کرے گا‘۔
عثمان کاکٹر نے کہا کہ ’یہ کیسے خفیہ ادارے ہیں، کوئی پارلیمنٹ میں آکر جواب دے کیونکہ لوگ اپنے اداروں سے خوفزدہ ہیں‘۔
خیال رہے کہ 13 اگست کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے احسان اللہ احسان کے فرار اور اس کے بعد مبینہ آڈیو ٹیب سے متعلق سوال پر تصدیق کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک آپریشن کے دوران احسان اللہ احسان کو استعمال کیا جارہا تھا اور وہ اس دوران فرار ہوگیا۔
راولپنڈی میں پریس بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں’۔
خیال رہے کہ 17 اپریل 2017 کو پاک فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔
علاوہ ازیں رواں برس فروری کے آغاز میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ احسان اللہ احسان مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
بعدازاں 17 فروری کو وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تصدیق کی تھی۔