اپوزیشن کا کانفرنس سے قبل تحریری معاہدے کا مطالبہ

ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کی منظوری کے دوران پارلیمنٹ میں حکومت کی حمایت کرنے کے حالیہ اقدام پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے ناراض متعدد چھوٹی اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں ایک کثیر الجماعتی جماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کو بلانے سے قبل اپوزیشن کے اتحاد کو باضابطہ بنانے کے لیے کسی میثاق جمہوریت (سی او ڈی) کی طرح کی دستاویز پر دستخط کریں۔

ذرائع کے مطابق یہ مطالبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی قوم پرست جماعتوں سمیت چھوٹی جماعتوں کی جانب سے جمعرات کی رات دیر گئے اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ سربراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر 9 حزب اختلاف کی جماعتوں، علاوہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)، کے ایک اجلاس کے دوران سامنے آیا۔

تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ رہبر کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے جس کا آئندہ ہفتے اس کے کنوینئر اکرم درانی کی زیر صدارت اجلاس متوقع ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ معاہدے پر دستخط کرنے کا مطالبہ کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سامنے رکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں رہبر کمیٹی اس وقت تشکیل دی گئی تھی جب جے یو آئی (ایف) نے حکومت مخالف لانگ مارچ کیا تھا اور اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔

کمیٹی کا بنیادی مقصد دھرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا اور تنازع کے حل کے لیے حکومت سے مذاکرات کرنا تھا۔

تاہم رہبر کمیٹی غیر موثر رہی کیوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے صرف علامتی طور پر اس دھرنے میں حصہ لیا اور خود مولانا فضل الرحمن ہی تھے جنہوں نے سرکاری ٹیم کے ساتھ بات چیت کی اور آخر کار 13 دن کا دھرنا اچانک منسوخ کردیا گیا تھا۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے صدر آفتاب شیرپاؤ، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی اور نیشنل پارٹی (این پی) کے ایوب ملک کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک دھڑے بلوچستان نیشنل پارٹی (ایم) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی مولانا فضل الرحمٰن کے گھت ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کی۔

شرکاء میں سے ایک نے ڈان کو بتایا کہ متعدد رہنماؤں جنہوں نے اجلاس میں شرکت کی تھی، نے ماضی میں اہم پوزیشن میں آنے کے بعد ‘اپوزیشن کے اتحاد کو نقصان پہنچانے’ پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر کڑی تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ملک کے سیاسی امور پر نہایت ہی زبردست بحث کی ہے اور انتخابات اور دیگر اہم امور میں دیگر ‘اداروں’ کی مداخلت کو روکنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت کچھ سینئر رہنماؤں نے ناراض ارکان کو راضی کرنے کی کوشش کی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت چند سینیئر لیڈرز نے ناراض رہنماؤں کو منانے کی کوشش کی اور ان کو بتایا کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ان دو بڑی جماعتوں پر اعتماد کریں اور حکومت کے خلاف مہم چلابا چاہتے ہیں تو انہیں ساتھ لے کر چلیں۔

اجلاس کے بعد ایک مختصر نیوز کانفرنس کے دوران جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے کوئی تحریری وعدہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو تو جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے صرف اتنا کہا کہ اس طرح کی تجویز پر رہبر کمیٹی ہی فیصلہ کرسکتی ہے۔

تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کی کہ حزب اختلاف کی صفوں میں کوئی دراڑ پڑ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ان کے مطالبے پر متحد ہے کہ ملک کو بیرونی مداخلت کے بغیر تازہ اور شفاف عام انتخابات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتوں کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو کی جائے اور ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی دوسرا ادارہ انتخابی عمل میں مداخلت نہ کر سکے۔

اسی طرح انہوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتی ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے گزشتہ ہفتے کے دورے کے دوران بعد پارٹیوں کے بیشتر تحفظات دور کردیئے گئے تھے۔