وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں 35 ترامیم تجویز کیں، جنہیں منظور کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں آنے سے پہلے ہی پاکستان گرے لسٹ میں آچکا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ یک دم نہیں ہوا بلکہ یہ طویل کوتاہیوں کی داستان ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اپوزیشن اراکین سمیت ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ گرے لسٹ کی تلوار جو ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اس سے آزادی حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی ایک واضح پالیسی ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف دھکیل دے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان، بلیک لسٹ میں چلا جاتا ہے تو جو معاشی بدحالی، جو پابندیاں لاگو ہوں گی، اس سے مہنگائی کا طوفان پیدا ہوگا اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے گا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کا جو جن بوتل سے باہر آئے گا اس سے بیروزگاری پیدا ہوگی اور بھارتی سازشی عناصر اس سے پوری طرح باخبر ہیں اور یہی ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلا جائے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہر فورم پر بھارت، پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور ہم اسے گرے لسٹ سے نکالنے کی جستجو کررہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ہم نے سفارتکاری کا سہارا لیا اور جتنے بھی پاکستان کے دوست ممالک ہیں جیسا کہ ترکی، سعودی عرب، ملائیشیا کے ساتھ سفارتی طور پر مصروف عمل ہوئے تاکہ اگر بھارت ہمیں بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کرے تو اسے روکنے کے لیے ہمارے پاس معقول تعداد میں ووٹ ہونے چاہیئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی منصوبہ بندی سے انتظامی اور اصلاحی اقدامات کے ذریعے بھارت کی کوششوں کا راستہ بند کیا اور پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے آخری اجلاس میں پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کیا گیا اور انہیں سراہا گیا لیکن کہا کہ کچھ ذمہ داریاں ہیں جو پوری کرنی ہیں۔
وزیر خارجہ نے وزارت خزانہ، ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی نمائندگی کرنے پر وفاقی وزرا اسدعمر اور حماد اظہر کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم اس گرے لسٹ سے آزادی حاصل کریں جس کے لیے ہمیں کچھ قانون سازی درکار ہے اور ہم نے کچھ بلز متعارف کروائے ہیں اور تقریباً 11 کے قریب چیزیں ایسی ہیں جہاں قانون سازی درکار ہے۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں ہم ان سے امداد کے طلبگار ہیں کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان کے مفادات مقدم ہیں، ہم آج یہاں ہیں کل نہیں ہوں گے، ہم سے بڑی ہستیاں آئیں اور چلی گئیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس چیز کو اور وقت کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اپوزیشن کو دعوت دی کہ ان پر مذاکرات کرلیں اور ایسے 4 بلز کی شناخت کی گئی جن پر ہمیں فوری قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہم قانون سازی کریں گے تو وہ رپورٹ ایشیا پیسیفک گروپ کے پاس جائے گی وہ اس کا تجزیہ کریں گے اور رپورٹ مرتب کرکے ایف اے ٹی ایف پلینری میں پیش کرے گی جہاں فیصلہ ہوگا کہ پاکستان نے گرے لسٹ میں رہنا ہے یا اس سے آزادی حاصل کرتا ہے اور وائٹ لسٹ میں آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے جب اس ضرورت کو محسوس کیا تو اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کا آغاز کیا اور انہوں نے خندہ پیشانی سے اس کی اہمیت کو جانچا میں نے ان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے کہا کہ ہم اس پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ بلز ہم نے دونوں ایوانوں سے منظور کروانے ہیں اور ایک بل ایسے ہیں جو قومی اسمبلی پاس کرچکی ہے لیکن سینیٹ میں پاس ہونا ہے جبکہ دیگر 3 پیش کیے جاچکے ہیں لیکن منظور ہونے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس میں اپوزیشن، حکومت اور اس کی حلیف جماعتیں شامل تھیں جن کے مذاکرات ہوئے اور تبادلہ خیال بھی ہوا لیکن ایک چیز جو کم از کم میرے لیے چونکادینے والی تھی اور اس حوالے سے اپوزیشن سے گزارش بھی کی تھی کہ اس پر نظرثانی کریں۔