افغان سفیر کو سوالنامہ بھیج دیا ، جواب دینا ہونگے : پاکستان

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کی تفتیش افغانستان اور پوری دنیا کے سامنے رکھیں گے اور مجرمان کو بے نقاب کریں گے، بھی بیٹیوں والے ہیں انکی عزت، احترام اور پرائیویسی سب پر لازم ہے، واقعہ پر سب کو دکھ ہے ،افغان سفارت خانے، قونصل خانوں کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے،حکومت پاکستان مکمل تعاون کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ہم نے کچھ پوشیدہ نہیں رکھنا، ہمیں کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ،سیکیورٹی ماحول دیکھنے افغان وفد اسلام آباد آئے گا،ہماری قانونی ذمہ داریاں، سفارتی آداب اور ذمہ داریاں ہیں، ان سے پوری طرح واقف ہیں اور پوری طرح تعاون کریں گے۔مشیر قومی سلامتی معید یوسف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسلام آباد میں افسوس ناک واقعہ رونما ہوا جس سے ہم سب کو تکلیف تھی اور ہونی چاہیے، ہم بھی بیٹیوں والے ہیں اور ان کی عزت، احترام اور پرائیویسی سب پر لازم ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے علم میں جب آیا کہ افغانستان کی حکومت نے اپنے سفیرو اور سینئر سفارت کاروں کو واپس بلا رہے ہیں تو میں نے افغان وزیر خارجہ سے رابطہ کرکے حقائق سے مطلع کرنے کا فیصلہ کیا اور صبح ان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔انہوںنے کہاکہ ہم نے جو اقدامات کیے ہیں، ان سے شیئر کیا اور تسلی دی کہ حکومت پاکستان مکمل تعاون کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ہم نے کچھ پوشیدہ نہیں رکھنا، ہمیں کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ جو تفتیش اس وقت جاری ہے، اس کے جو بھی نتائج ہوں گے وہ ہم میڈیا کو جاری کرنا چاہیں گے، کیونکہ کچھ بھی پوشیدہ رکھنا ہمارا ارادہ نہیں ہے۔افغان وزیر خارجہ سے ہونے والی گفتگو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ان کو بتایا وزیراعظم پاکستان نیذاتی طور پر اس کا نوٹس بھی لیا ہے اور پوری تفتیش کو وہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ کس نوعیت کا ہے اور کتنا حساس ہے۔انہوںنے کہاکہ میں نے انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔انہوں نے کہا کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ حقائق ان کے اور دنیا کے سامنے رکھیں اور جو مجرم ہیں ان کو بے نقاب کریں، نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں اور جو ذمہ داران ہیں، انہیں قرار واقعی سزا ملے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ نے ان کے سفیر اور ان کی صاحبزادی کو دفتر خارجہ میں دعوت دی اور حکومت پاکستان کے نکتہ نظر سے آگاہ کیا اور انہیں مکمل تعاون کی پوری تسلی دی۔سیکرٹری خارجہ کی افغان سفیر اور ان کی صاحبزادی سے ملاقات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ ہمیں آپ کی سیکیورٹی کا پورا احساس ہے، سیکیورٹی پہلے بھی مناسب تھی لیکن اس واقعے کے بعد فیصلہ کیا مزید بڑھا دی جائے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے ان کے نہ صرف سفارت خانے بلکہ قونصل خانے چاہے کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہماری افغانستان اور پاکستان اپنی قدریں ہیں، ہمارا کلچر، ہمارا ماحول، ہمارا دین اور ہماری اقدار ملتی جلتی ہیں، وہ ہماری اقدار کا احترام کرتے ہیں اور ہمیں ان کیاقدات کا احترام کرنا ہے اور آداب میں رہ کر آگے بڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے ان سے ایک نوٹ بھی دیا ہے، اس میں ہم نے ان سے کچھ تقاضے دیے ہیں جو تفتیش کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہیں، ہمیں ان کا تعاون درکار ہوگا۔انہوںنے کہاکہ افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر نے بھی کہا ہے کہ وہ نوٹ دیکھ لیا ہے اور میں نے ان سے گزارش کی کہ سفیر اور سینئر سفارت کاروں کو واپس بلانے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں جو ہم دونوں کے مفاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلقات کی اہمیت سے ہم غافل نہیں، ہماری قانونی ذمہ داریاں، سفارتی آداب اور ذمہ داریاں ہیں، ہم ان سے پوری طرح واقف ہیں اور پوری طرح ان سے تعاون کریں گے۔انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان کے ساتھ ہم تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور خاص کر ان حالات میں جہاں ایک امن عمل کی نشست جاری ہے، آج بھی زلمے خلیل زاد آئے تھے اور وزیراعظم سے ملاقات کی، ہم نیپاکستان کا مؤقف پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ حنیف آتمر نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اس تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے مکمل تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں، جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وزیراعظم کے سنجیدہ نوٹس پر شکریہ ادا کیا اور وزارت خارجہ کے اقدامات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپنا ایک وفد بھی اسلام آباد بھیجنا چاہتے ہیں تو میں نے کہا شوق سے آپ تشریف لائیں اور وہ ٹیم آئے۔انہوںنے کہاکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ ٹیم بھیج کر سیکیورٹی کا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم اس ٹیم کے ساتھ بھی تعاون کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں اس کیس پر ہمیں مشترکہ طور پر آگے بڑھنا چاہیے اور اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔آئی جی اسلام آباد نے کسی کی تفتیش کے حوالے سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہ انتہائی حساس اور اہم کیس ہے، اس طرح کا واقعہ رپورٹ ہونا ہمارے لیے چیلنج تھا، یہ کیس اندھا تھا، رپورٹ کے بعد کوئی ثبوت اور دیگر چیزیں ہمارے پاس نہیں تھی۔انہوںنے کہاکہ اسلام آباد پولیس نے تمام وسائل بروئے کار لائے اور 5 ٹیمیں تشکیل دیں، کوئی ٹیکنیکل، کوئی ہیومن اینالسز پر گیا اور ایک ٹیم آپریشن پر تشکیل ہوئی اور جہاں سے معلومات ملتی تھی وہ ٹیم وہاں جاتی تھی، ڈیٹا اینالسز ہوا اور دیگر اداروں نے ہماری بھرپور مدد کی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ کم و بیش 3 دنوں کے عمل کے دوران ہم نے 300 سے زیادہ کیمروں کا تجزیہ کیا، جس میں سیف سٹی کیمرے اور نجی کیمرے بھی شامل ہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی کے کیمرے بھی شامل ہیں۔آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے 700 گھنٹوں سے زائد کی ریکارڈنگ دیکھی، اب تک 220 سے زائد افراد کا انٹرویو کیا، ایک گاڑی کے 5 مالکان نکل آئے اور ایک ایک کرکے ان کے پاس جاتے گئے اور بالآخر ڈرائیور تک پہنچ گئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اس وقت 350 سے زائد افسر اور جوان، خواتین پولیس افسران پچھلے تین دنوں سے اس کیس پر کام کر رہے ہیں، اس کا حصول یہ ہے کہ ہم نے پورا روٹ واضح کر لیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ تصدیق کرلی ہے کہ شکایت کنندہ گھر سے نکلتی ہیں تو پھر کہاں جاتی ہیں، پھر کہاں جاتی ہیں اور پھر گھر کیسے پہنچتی ہیں۔آئی جی نے کہا کہ یہ گھر سے پیدل نکلتی ہیں، پھر گالا مارکیٹ سے ٹیکسی لے کر کھڈا مارکیٹ جاتی ہیں اور تحائف لیتی ہیں، اس حوالے سے ڈرائیور کا کھوج لگا کر اس سیپوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے ان کو یہاں اٹھایا تھا۔انہوںنے کہاکہ پھر دوسری ٹیکسی میں کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی جاتی ہیں، یہاں اہم بات یہ ہے کہ وہ شکایت کرتی ہیں کہ دوسری ٹیکسی میں واقعہ ہوتا ہے، ٹیکسی میں چلتے ہوئے 5 منٹ ہوتے ہیں تو کوئی بندہ داخل ہوتا ہے اور ان پر تشدد کرتا ہے۔پولیس افسر نے بتایا کہ ہم نے دوسری ٹیکسی کا بھی کھوج لگایا تو اس کے بھی تین مالکان تھے اور تیسرے مالک کے پاس پہنچ کر ڈرائیور مل جاتا ہے اور وہ تصدیق کرتا ہے کہ میں نے ان کو کھڈا مارکیٹ سے اٹھایا اور راولپنڈی صدر لے کر گیا اور 600 روپے کرایہ وصول کیا جبکہ کھڈا مارکیٹ سے نکل کر ایکسپریس وے، فیض آباد اور صدر کی ساری سی سی ٹی وی فوٹیج ملی۔انہوںنے کہاکہ جہاں پر ان کو ڈراپ کیا گیا تھا وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں نہیں ملی، پنڈی صدر کے 8 کیمروں سے اس کی تصدیق ہوئی ہم نے ڈرائیور کا نمبر بھی ٹریک کیا تو وہ بھی وہی پہنچی۔انہوں نے کہا کہ پنڈی سے دامن کوہ کے لیے ایک اور ٹیکسی لی جہاں سے ہمیں ایک کیمرے ملا جو دامن کوہ میں تھا وہاں سے ہمیں اشارے ملے تو ہم نے ڈرائیور ڈھونڈ نکالا، جس نے کہا کہ میں نے ان سے 700 کرایہ لیا اور اسلام آباد ڈراپ کیا۔تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پھر چوتھی ٹیکسی بھی شامل ہے، وہ یہ ہے کہ دامن کوہ سے ان کو اٹھاتا ہے اور ایف نائن پارک ڈراپ کرتا ہے لیکن اسے پہلے ایف 6 جاتی ہیں اور فون نہیں ملنے پر ایف نائن پارک جاتی ہیں، اس بندے کا انٹرویو بھی ہوگیا ہے۔انہوںنے کہاکہ ایف نائن پارک میں کسی سے وبائل لے کر وہ سفارت خانے فون کرتی ہیں اور وہاں سے سفارت خانے کا عملہ آکر ان کو گھر لے جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری تفتیش تقریباً پوری ہوگئی ہے، درمیان میں ایک تاثر آگیا تھا وہ ہمارے ثبوت کے مطابق ثابت نہیں ہوتا اور ہم نے وزارت خارجہ سے درخواست کی کہ ہمیں مزید تعاون کی ضرورت ہے تو انہوں نے نوٹ بنا کر بھیج دیا۔مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہاکہ پاکستان ہائبرڈ وار کا نشانہ بنا ہوا ہے،پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کا جال بنا جارہا ہے،ای یو ڈس انفو لیب بھی اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ مئی کے آخر سے لے کر اب تک پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈہ جاری ہے،مختلف جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف غلط تاثر پھیلایا جارہا ہے،پاکستان ہندوستاں اور افغانستان سے یہ جعلی اکاؤنٹس چکائے جارہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کو افغانستان میں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے،ہم افغانستان میں قربانی کا بکرا ہرگز نہیں بنیں گے،کسی اور کی غلطیاں ہم اپنے سر نہیں لیں گے