آڈیو لیک معاملے کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم میں کی گئی شکایت پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین احمد حسین ڈہر کی زیر صدارت ہوا۔
اجلاس میں رکن ملک سہیل خان،ندیم عباس، راناشمیم احمد اور آغا رفیع اللہ ، ڈی جی ایف آئی اے،ڈی جی پاسپورٹ،نادرا حکام ودیگر نے شرکت کی۔
کمیٹی کاکورم نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس 15 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔کمیٹی کو ایف آئی اے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
رکن آغا رفیع اللہ نے کہاکہ مجھے بریف وقت پر نہیں ملی۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ ایجنڈا اجلاس سے دو دن پہلے ارکان کے پاس پہنچنا چاہیے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی بحالی کے حوالے سے بریفنگ دی۔
چیئرمین کمیٹی احمد حسین ڈہر نے کہا کہ ایف آئی اے میں اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ سابقہ حکومت نے سیاسی مقاصد کے لیے بنایا۔ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا اس کو اب عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جائے اب اس یونٹ کو بحال کر کے پرانے کیس حل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
ڈی جی ایف آئی اے محسن حسن بٹ نے کہاکہ اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ 1976 میں بنائی گئی تھی اس میں ہائی پروفائل کیس آتے تھے ایف آئی اے کی ری اسٹکچرنگ کے دوران اس یونٹ کو بند کیا گیا۔ 2018 میں یہ اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ بند کردیا گیا۔
اس کے بعدایف آئی اے نے اس یونٹ کو ختم کرکے مختلف زون بنا دیے ہیں ، کل 7زون بنائے ہیں ۔گریڈ 21 کا افسر اس کو ہیڈ کرتا ہے ۔اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ کو بحال کریں گے تو دوبارہ سیاسی مداخلت شروع ہو جائے گی ایف آئی اے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کو بحال کرنے کے حق میں نہیں ہے ، یہ بدنام زمانہ نام ہے کسی اور نام سے مانیٹرنگ کمیٹی بنادیں گے۔
کمیٹی نے کہاکہ ایف آئی اے میں کام کرنے والے ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کی جائے کیا یہ اصلی ہیں کہ نہیں۔
رکن آغا رفیع اللہ نے ایف آئی اے ملازمین کی ڈگریاں ویریفائی کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں سب کی پولیٹیکل سائنس کی ڈگری ہوتی ہے۔ارکان نے کہاکہ جعلی ڈگری پر کوئی بھرتی ہوا ہے تو اس کا پتہ چلنا چاہیے۔ڈی جی ایف آئی اے نے کہاکہ سب کی ڈگریاں ویریفائی کرلیتے ہیں۔
وزارت داخلہ نے کمیٹی میں سیکشن افسر بھیج دیا،سیکشن افسر بھیجنے پر کمیٹی چیئرمین نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت کی بریفنگ ایجنڈے کا حصہ ہے مگر سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری کمیٹی میں نہیں آئے۔
جس پر رکن کمیٹی آغا رفیع اللہ نے اعتراض کیا کہ جب وزیر کمیٹی میں نہیں آتے تو کسی دوسرے افسرکے خلاف بھی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ رانا ثناء اللہ کو کمیٹی میں آنا چاہیے تھا اگر وہ نہیں آسکتے تو وزیر مملکت برائے داخلہ کو آنا چاہیے۔
گذشتہ اجلاس میں طے ہواتھا کہ اگر وزیر داخلہ نہیں آئیں گے تو کمیٹی کا اجلاس بھی نہیں ہوگا۔جس پر چیئرمین کمیٹی احمد حسین ڈہر نے کہا کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اگلے اجلاس میں آؤں گا۔
حکام ایف آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ 2021 میں سائبر کرائم میں ایک لاکھ سے زائد شکایات آئی تھیں۔ چیئرمین نے کہا کہ ایف آئی اے کی طرف سے سائبر کرائم میں رزلٹ کیوں نہیں آرہے ہیں۔حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے میں سائبر کرائم میں صرف 150 انویسٹی گیشن افسر ہیں وہ پورے پاکستان کو کس طرح دیکھ سکتے ہیں ۔
سائبر کرائم میں انسانی وسائل کی شدید کمی کاسامنا ہے پہلے جو بھرتی کی تھی ، سارا عمل مکمل ہونے کے بعد وزارت خزانہ نے بھرتی کرنے سے روک دیا تھا جس پرکمیٹی نے سفارش کی کہ ایف آئی اے میں 11سو انویسٹی گیشن افسران کی بھرتی 3 ماہ میں مکمل کی جائے۔
رکن آغا رفیع اللہ نے ایف آئی اے حکام سے سوال کیا کہ سیکرٹری داخلہ کا سائبر کرائم کا کیس تھا اس کا کیا بنا؟جس پر ایف آئی اے حکام کیس کے بارے میں کوئی جواب نہ دے سکے جس پر آغا رفیع اللہ نے کہاکہ اگر ایف آئی اے اپنے سیکرٹری کی شکایت حل نہیں کرسکتا ان کو ریلیف نہیں دے سکتا تو عام عوام کو کیا ریلیف دے گا ۔
واضح رہے کہ سیکرٹری داخلہ نے 31 مئی 2022 میں ان سے منسوب مبینہ جعلی آڈیو کے خلاف ایف آئی اے میں شکایت کی تھی۔
چیئرمین کمیٹی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر ایف آئی اے عوام کو ریلیف نہیں دے سکتی تو اس ادارے کو ہی بند کردیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کہاکہ سائبر میں ہی مستقبل کا جرم ہوگا اس کے لیے ہمیں وسائل دیے جائیں۔
حکام نے بتایا کہ ایف آئی اے میں پہلے 6 فرانزک لیب تھیں اب 15 کردی ہیں۔2015 سے ایف آئی اے میں کوئی نئی گاڑی نہیں آئی ہے، ہمارے پاس زیادہ گاڑیاں کسٹم سے لی گئی ہیں۔ڈی جی ایف آئی اے نے کمیٹی کو سائبر کرائم اسلام آباد کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔
ڈی جی پاسپورٹ نے پاسپورٹ کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ ڈی جی پاسپورٹ یاور حسین نے کہاکہ ای پاسپورٹ سفارتکار اور حکومتی شخصیات کو جاری کررہے ہیں جب قیمت کا تعین ہوجائے تو اس کو عام عوام کے لیے بھی جاری کریں گے ۔ای پاسپورٹ کی قیمت 7 سے 10 ہزار روپے ہوگی۔
8 مزید اضلاع میں پاسپورٹ دفاتر بنانے کی منظوری ہوگئی ہے۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ ای پاسپورٹ دو ماہ کے اندر عام عوام کو بھی جاری ہونے چاہیئں۔
نادرا کی موٹرسائیکل سروس پر ارکان نے اعتراض کیا نادرا کے دفاتر میں لمبی لائنیں لگی ہوتی ہیں ان کے لیے کچھ کریں موٹرسائیکل سروس سے تو چند لوگ مستفید ہوں گے نادرا نے یہ موٹرسائیکل سروس اشرافیہ کے لیے چلائی ہے۔
آغا رفیع اللہ نے کہا کہ موٹرسائیکل سروس شروع کر کے ایک اور توپ ہمارے گلے آپ ڈال رہے ہیں لوگ ہمیں کال کر کے کہیں گے کہ موٹرسائیکل ہمارے گھر بھیج دیں ہم نے شناختی کارڈ بنانا ہے یہ سروس اشرافیہ کے لیے ہے اس کی جگہ دفاتر میں اضافہ کریں موبائل وین میں اضافہ کریں تاکہ عام عوام کوفائدہ ہو۔
حکام نے بتایا کہ جو موٹرسائیکل سروس منگوائے گا اس کو فیس کے ساتھ ایک ہزار روپے اضافی دینے ہوں گے۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ نادراموٹرسائیکل سروس صرف بزرگوں، معذوروں اور مریضوں کے لیے ہونی چاہیے جونادرا دفاتر نہیں آسکتے ہیں۔